EN हिंदी
اک پل میں کیا کچھ بدل گیا جب بے خبروں کو خبر ہوئی | شیح شیری
ek pal mein kya kuchh badal gaya jab be-KHabron ko KHabar hui

غزل

اک پل میں کیا کچھ بدل گیا جب بے خبروں کو خبر ہوئی

اشفاق عامر

;

اک پل میں کیا کچھ بدل گیا جب بے خبروں کو خبر ہوئی
میں تنہائی میں چھپا رہا جب مجھ پر اس کی نظر ہوئی

اک چاند چمک کر چلا گیا پھر کتنی گھڑیاں گزر گئیں
مجھ کو تو کچھ بھی خبر نہ تھی کب رات ہوئی کب سحر ہوئی

تھی حسن کی چھب اک عجب ادا جب پھول سا چہرہ مہک اٹھا
وہ منظر مجھ کو جچا بہت پھر عمر اسی میں بسر ہوئی

آنا بھی تیرا غضب ہوا اس شہر کا منظر بدل گیا
بھونچال سا آیا گلی گلی ہر چیز ادھر سے ادھر ہوئی

یہ روگ لگا ہے عجب ہمیں جو جان بھی لے کر ٹلا نہیں
ہر ایک دوا بے اثر گئی ہر ایک دعا بے اثر ہوئی