اک پل بھی مرے حال سے غافل نہیں ٹھہرا
کیوں پھر وہ مرے درد میں شامل نہیں ٹھہرا
حالات کے پالے ہوئے عفریت کے ہاتھوں
سینے میں کبھی سانس کبھی دل نہیں ٹھہرا
ہر خواہش جاں مار کے سب راحتیں تج کے
جز میرے کوئی غم کے مقابل نہیں ٹھہرا
جس شخص کو آتا تھا ہنر نوحہ گری کا
وہ شخص بھی اب کے لب ساحل نہیں ٹھہرا
کچھ اس کے سوا اور بھی الزام بہت تھے
کب منتظر خنجر قاتل نہیں ٹھہرا

غزل
اک پل بھی مرے حال سے غافل نہیں ٹھہرا
شفیق سلیمی