EN हिंदी
اک پل بھی مرے حال سے غافل نہیں ٹھہرا | شیح شیری
ek pal bhi mere haal se ghafil nahin Thahra

غزل

اک پل بھی مرے حال سے غافل نہیں ٹھہرا

شفیق سلیمی

;

اک پل بھی مرے حال سے غافل نہیں ٹھہرا
کیوں پھر وہ مرے درد میں شامل نہیں ٹھہرا

حالات کے پالے ہوئے عفریت کے ہاتھوں
سینے میں کبھی سانس کبھی دل نہیں ٹھہرا

ہر خواہش جاں مار کے سب راحتیں تج کے
جز میرے کوئی غم کے مقابل نہیں ٹھہرا

جس شخص کو آتا تھا ہنر نوحہ گری کا
وہ شخص بھی اب کے لب ساحل نہیں ٹھہرا

کچھ اس کے سوا اور بھی الزام بہت تھے
کب منتظر خنجر قاتل نہیں ٹھہرا