اک پل بغیر دیکھے اسے کیا گزر گیا
ایسے لگا کہ ایک زمانہ گزر گیا
سب کے لیے بلند رہے ہاتھ عمر بھر
اپنے لیے دعاؤں کا لمحہ گزر گیا
کوئی ہجوم دہر میں کرتا رہا تلاش
کوئی رہ حیات سے تنہا گزر گیا
ملنا تو خیر اس کو نصیبوں کی بات ہے
دیکھے ہوئے بھی اس کو زمانہ گزر گیا
دل یوں کٹا ہوا ہے کسی کی جدائی میں
جیسے کسی زمین سے دریا گزر گیا
اس بات کا ملال بہت ہے مجھے عدیمؔ
وہ میرے سامنے سے اکیلا گزر گیا
ہم دیکھنے کا ڈھنگ سمجھتے رہے عدیمؔ
اتنے میں زندگی کا تماشا گزر گیا
باقی بس ایک نام خدا رہ گیا عدیمؔ
سب کچھ بہا کے وقت کا دریا گزر گیا
غزل
اک پل بغیر دیکھے اسے کیا گزر گیا
عدیم ہاشمی