اک نہتا آدمی تدبیر سے
کیا لڑے تقدیر کی شمشیر سے
مسکرانا زیر لب ہر وقت ہی
کوئی سیکھے آپ کی تصویر سے
پھول سے پیش آئیے نرمی کے ساتھ
کاٹیے شمشیر کو شمشیر سے
دل میں تیری یاد سے ہے روشنی
آنکھ روشن ہے تری تصویر سے
اپنے دیوانے کی بیتابی کا حال
پوچھیے ٹوٹی ہوئی زنجیر سے
غزل
اک نہتا آدمی تدبیر سے
جگر جالندھری