EN हिंदी
اک نگاہ دلبری میری طرف | شیح شیری
ek nigah-e-dilbari meri taraf

غزل

اک نگاہ دلبری میری طرف

نامی انصاری

;

اک نگاہ دلبری میری طرف
زندگی آ جائے گی میری طرف

سیم و زر کا اک شجر اس کے لیے
شاخ علم و آگہی میری طرف

میرے اندر بھی اندھیرا ہے بہت
روشنی اے روشنی میری طرف

سیر گل سیر چمن سب اس کے نام
شہر بھر کی ناخوشی میری طرف

دست مجنوں کے ہرن کالے ہوئے
برف سی گرتی ہوئی میری طرف

اس کے دست ناز میں لاکھوں ہنر
میرا پائے نا رسی میری طرف

میں کہ نامیؔ پاسدار فکر نو
جرم ہائے گفتنی میری طرف