اک نظر ہی دیکھا تھا شوق نے شباب ان کا
دن کو یاد ہے ان کی رات کو ہے خواب ان کا
گر گئے نگاہوں سے پھول بھی ستارے بھی
میں نے جب سے دیکھا ہے عالم شباب ان کا
ناصحوں نے شاید یہ بات ہی نہیں سوچی
اک طرف ہے دل میرا اک طرف شباب ان کا
اے دل ان کے چہرے تک کس طرح نظر جاتی
نور ان کے چہرے کا بن گیا حجاب ان کا
اب کہوں تو میں کس سے میرے دل پہ کیا گزری
دیکھ کر ان آنکھوں میں درد اضطراب ان کا
حشر کے مقابل میں حشر ہی صف آرا ہے
اس طرف جنوں میرا اس طرف شباب ان کا
غزل
اک نظر ہی دیکھا تھا شوق نے شباب ان کا
جگن ناتھ آزادؔ