اک نئے مسئلے سے نکلے ہیں
یہ جو کچھ راستے سے نکلے ہیں
کاغذی ہیں یہ جتنے پیراہن
ایک ہی سلسلے سے نکلے ہیں
لے اڑا ہے ترا خیال ہمیں
اور ہم قافلے سے نکلے ہیں
یاد رہتے ہیں اب جو کام ہمیں
یہ اسے بھولنے سے نکلے ہیں

غزل
اک نئے مسئلے سے نکلے ہیں
کامی شاہ