اک مصرف اوقات شبینہ نکل آیا
ظلمت میں تری یاد کا زینہ نکل آیا
ہر چند کہ محفل نے مری قدر بہت کی
اکتا کے انگوٹھی سے نگینہ نکل آیا
پھر کوہ کنی ڈھال رہی ہے نئے تیشے
پھر فخر سے چٹان کا سینہ نکل آیا
سچ مچ وہ تغافل سے کنارہ ہی نہ کر لے
میں سوچنے بیٹھا تو پسینہ نکل آیا
غوطہ جو لگایا ہے تو مایوس ہوا ہوں
ہر موج کے دامن میں سفینہ نکل آیا
گھبرایا ہوا دیکھ کے پت جھڑ کے عقب سے
میرے لیے ساون کا مہینہ نکل آیا
جب وقت نے چھانی ہیں مظفرؔ کی بیاضیں
ہر شعر میں ندرت کا دفینہ نکل آیا
غزل
اک مصرف اوقات شبینہ نکل آیا
مظفر حنفی