اک مسرت مرے اطراف کو انجانی دے
نطق کو لب سے اٹھا آنکھ کو حیرانی دے
ہے تمنا کہ چمکتے رہیں محور کے بغیر
ہوس خام نہ دے عشق تو لا فانی دے
نقش تو سارے مکمل ہیں اب الجھن یہ ہے
کس کو آباد کرے اور کسے ویرانی دے
دیکھ کر آئے ہیں کچھ لوگ وہاں سبز لکیر
میں اسے دیکھ سکوں اتنی گراں جانی دے
یہ تو دیکھیں کہ ہے بنیاد میں کیا کیا محفوظ
گھر بنایا ہے تو اب ورطۂ طغیانی دے
عکس رخ کیسا یہاں کچھ بھی نہیں ہے دل میں
ہم کو شاداب نہ کر حوصلہ طوفانی دے
سامنے تیرے ہم اس خاک سے شرمندہ نہ ہوں
موت آسان ہو یا رزق میں ارزانی دے
جانے کیا کیا نظر آتا ہے تمنا بر کف
میرے مالک مجھے دو روز کی سلطانی دے
حوصلہ ہار گئی تشنہ دہانی حقیؔ
اب تو مشکیزہ اٹھا اور مجھے پانی دے
غزل
اک مسرت مرے اطراف کو انجانی دے
ابو الحسنات حقی