EN हिंदी
اک منظر فریب محبت ہے پیار ہے | شیح شیری
ek manzar-e-fareb-e-mohabbat hai pyar hai

غزل

اک منظر فریب محبت ہے پیار ہے

جلیل ساز

;

اک منظر فریب محبت ہے پیار ہے
چہرے بتا رہے ہیں دلوں میں غبار ہے

میں سن رہا ہوں بڑھتی ہوئی شورشوں کی چاپ
دنیا سمجھ رہی ہے فضا سازگار ہے

چل میرے ساتھ اور قدم تول تول کر
صبر و رضا کی راہ بڑی پیچ دار ہے

دن آج کا سکوں سے گزر جائے فکر کر
ہر آنے والے کل کا کسے اعتبار ہے

اس آس کو سنبھال کے فانوس دل میں رکھ
جس آس پر حیات کا دار و مدار ہے

ترتیب دے رہے ہیں چراغوں کی انجمن
وہ لوگ صبح نو کا جنہیں انتظار ہے

اے سازؔ کچھ‌‌ نہ کچھ تو ہے اس لطف خاص میں
ذکر ان کی انجمن میں مرا بار بار ہے