اک مکاں اور بلندی پہ بنانے نہ دیا
ہم کو پرواز کا موقع ہی ہوا نے نہ دیا
تو خدا بن کے مٹائے گا ہمیں ہی اک دن
سر ترے در پہ اسی ڈر نے جھکانے نہ دیا
متحد ہونے کا جذبہ تھا سبھی میں لیکن
متحد ہونے کا موقعہ ہی ہوا نے نہ دیا
تم پہ چھا جاتے شجر بنتے جو ننھے پودے
تم نے اچھا ہی کیا پاؤں جمانے نہ دیا
وہ تو آمادہ تھا بندوں کی شکایت سن کر
کچھ فرشتوں نے زمیں پر اسے آنے نہ دیا
آپ ڈرتے ہیں کہ کھل جائے نہ اصلی چہرہ
اس لئے شہر کو آئینہ بنانے نہ دیا
غزل
اک مکاں اور بلندی پہ بنانے نہ دیا
منظر بھوپالی