EN हिंदी
اک لہر سی دیکھی گئی پائے نہ گئے ہم | شیح شیری
ek lahr si dekhi gai pae na gae hum

غزل

اک لہر سی دیکھی گئی پائے نہ گئے ہم

محب عارفی

;

اک لہر سی دیکھی گئی پائے نہ گئے ہم
حالانکہ یہیں تھے کہیں آئے نہ گئے ہم

گرداب میں کیا ہے جسے طوفان مٹائے
ہاں گردش دوراں سے مٹائے نہ گئے ہم

پالا تھا اسے باد سے باراں سے بچا کر
جس آگ سے اے شمع بچائے نہ گئے ہم

ہیں بند یہ کس آئینہ خانے میں کہ باہر
نایاب نظارے نظر آئے، نہ گئے ہم