اک لہر سی دیکھی گئی پائے نہ گئے ہم
حالانکہ یہیں تھے کہیں آئے نہ گئے ہم
گرداب میں کیا ہے جسے طوفان مٹائے
ہاں گردش دوراں سے مٹائے نہ گئے ہم
پالا تھا اسے باد سے باراں سے بچا کر
جس آگ سے اے شمع بچائے نہ گئے ہم
ہیں بند یہ کس آئینہ خانے میں کہ باہر
نایاب نظارے نظر آئے، نہ گئے ہم

غزل
اک لہر سی دیکھی گئی پائے نہ گئے ہم
محب عارفی