اک خواب لڑکپن میں جو دیکھا تھا وہ تم تھے
پیکر جو تصور میں ابھرتا تھا وہ تم تھے
اک ایسا تعلق جو تعلق بھی نہیں تھا
پھر بھی میں جسے اپنا سمجھتا تھا وہ تم تھے
تھا قرب کی خواہش میں بھی کچھ حسن عجب سا
جو گرد مرے رنگ تھا نغمہ تھا وہ تم تھے
یک دم جو یہ تنہائی مہکنے سی لگی تھی
جھونکا جو ابھی خوشبو کا گزرا تھا وہ تم تھے
اس واسطے مے خواری کا الزام تھا مجھ پر
مجھ میں جو وہ اک نشہ سا رہتا تھا وہ تم تھے
غیبت کا ہدف تم نے جو رکھا تھا وہ میں تھا
اور میں نے جسے ٹوٹ کے چاہا تھا وہ تم تھے
بے مصرف و بے کار ہوں اب راکھ کی مانند
چنگاری تھی جو مجھ میں جو شعلہ تھا وہ تم تھے
لگتا ہے وہ شہر اب کسی آسیب زدہ سا
کیا جس کے لیے جشن سا برپا تھا وہ تم تھے
غزل
اک خواب لڑکپن میں جو دیکھا تھا وہ تم تھے
مرتضیٰ برلاس