EN हिंदी
اک خواب کو آنکھیں رہن رکھیں اک شوق میں دل ویران کیا | شیح شیری
ek KHwab ko aankhen rehn rakhen ek shauq mein dil viran kiya

غزل

اک خواب کو آنکھیں رہن رکھیں اک شوق میں دل ویران کیا

مبین مرزا

;

اک خواب کو آنکھیں رہن رکھیں اک شوق میں دل ویران کیا
جینے کی تمنا میں ہم نے مرنے کا سبھی سامان کیا

ہم خاک اڑاتے پھرتے ہیں اس دشت طلب میں پھر اک دن
اقلیم جنوں اس نے بخشی اور دل کا ہمیں سلطان کیا

کیا کہیے کرشمہ ساز تھے کیا آغاز محبت کے وہ دن
جب خود سے بھی ہم حیران ہوئے اس نے بھی بہت حیران کیا

اب ہجر کا موسم آ پہنچا ہم جان گئے تھے جب دل میں
اک درد نے ڈیرا ڈال لیا اک دکھ نے بیاں امکان کیا

اک عمر سے چپ تھا دل دریا اک روز مگر پھر امڈ پڑا
تن من سب جس میں ڈوب گئے ہر موج نے وہ طوفان کیا