اک خواب کے اثر میں کئی دن گزر گئے
پھر یوں ہوا کہ آنکھ کھلی ہم بکھر گئے
جب پاؤں کے نشان نشانی کی طرح تھے
تب لوگ کس ڈگر پہ چلے اور کدھر گئے
کل آنکھ کے شجر سے کئی پھول یاد کے
پلکوں سے ہو کے دل کی سڑک خوب بھر گئے
اے دکھ تری طویل رفاقت کے بعد بھی
خود سے ملے ہیں لوگ تو کتنے نکھر گئے
اس بار پھول دھوپ سے ناراض تھے عزیز
سایہ فروش جتنے بھی تھے بے ہنر گئے
غزل
اک خواب کے اثر میں کئی دن گزر گئے
وقاص عزیز