اک خواب ہے یہ پیاس بھی دریا بھی خواب ہے
ہے خواب تو بھی تیری تمنا بھی خواب ہے
یہ التزام دیدۂ خوش خواب بھی ہے خواب
رنگ بہار قامت زیبا بھی خواب ہے
وہ منزلیں بھی خواب ہیں آنکھیں ہیں جن سے چور
ہاں یہ سفر بھی خواب ہے رستہ بھی خواب ہے
یہ رفعتیں بھی خواب ہیں یہ آسماں بھی خواب
پرواز بھی ہے خواب پرندہ بھی خواب ہے
ہیں اپنی وحشتیں بھی بس اک خواب کا طلسم
یارو فسون وسعت صحرا بھی خواب ہے
غزل
اک خواب ہے یہ پیاس بھی دریا بھی خواب ہے
احمد صغیر صدیقی