EN हिंदी
اک خواب آتشیں کا وہ محرم سا رہ گیا | شیح شیری
ek KHwab-e-atishin ka wo mahram sa rah gaya

غزل

اک خواب آتشیں کا وہ محرم سا رہ گیا

عزیز حامد مدنی

;

اک خواب آتشیں کا وہ محرم سا رہ گیا
دیوار و در میں شعلہ‌ٔ برہم سا رہ گیا

شیر‌ وطن کے پیالے پہ تھیں کل ضیافتیں
آیا جو تا بہ لب تو فقط سم سا رہ گیا

مانا وفا برائے وفا اتفاق تھی
تم سا رہا کوئی نہ کوئی ہم سا رہ گیا

اک لا تعلقی کی فضا درمیاں رہی
جب دو دلوں میں فرق بہت کم سا رہ گیا

اس سرو قد کی تاب و ملائم رخی کا راز
عصیاں کی شب میں دیدۂ پر نم سا رہ گیا

آخر ہوئی بہار مگر رنگ گل کا خواب
دل میں دعا نگاہ میں شبنم سا رہ گیا

اک اس کے رنگ رخ کی جنوں ساز چھوٹ سے
اس زندگی میں خواب کا عالم سا رہ گیا