EN हिंदी
اک خلش سی ہے مجھے تقدیر سے | شیح شیری
ek KHalish si hai mujhe taqdir se

غزل

اک خلش سی ہے مجھے تقدیر سے

فرحت کانپوری

;

اک خلش سی ہے مجھے تقدیر سے
الاماں اس خار دامن گیر سے

حسرت نظارہ کی تاثیر سے
پردہ اٹھا یار کی تصویر سے

شام غم کے رونے والے صبر کر
صبح بھی ہوگی تری تقدیر سے

ادعائے ضبط غم کرنا پڑا
تنگ آ کر آہ بے تاثیر سے

مجھ کو دیوانہ سمجھ لیں اہل ہوش
کیوں الجھتے ہیں مری زنجیر سے

دل نہیں اک آبلہ سینے میں ہے
اس نگاہ گرم کی تاثیر سے

ہوتی ہے تسکین فرحتؔ کچھ نہ کچھ
خوش ہوں اپنی آہ بے تاثیر سے