اک خلش کو حاصل عمر رواں رہنے دیا
جان کر ہم نے انہیں نامہرباں رہنے دیا
آرزوئے قرب بھی بخشی دلوں کو عشق نے
فاصلہ بھی میرے ان کے درمیاں رہنے دیا
کتنی دیواروں کے سائے ہاتھ پھیلاتے رہے
عشق نے لیکن ہمیں بے خانماں رہنے دیا
اپنے اپنے حوصلے اپنی طلب کی بات ہے
چن لیا ہم نے تمہیں سارا جہاں رہنے دیا
کون اس طرز جفاۓ آسماں کی داد دے
باغ سارا پھونک ڈالا آشیاں رہنے دیا
یہ بھی کیا جینے میں جینا ہے بغیر ان کے ادیبؔ
شمع گل کر دی گئی باقی دھواں رہنے دیا
غزل
اک خلش کو حاصل عمر رواں رہنے دیا
ادیب سہارنپوری