اک خلا سا ہے جدھر دیکھو ادھر کچھ بھی نہیں
آسماں کون و مکاں دیوار و در کچھ بھی نہیں
بڑھتا جاتا ہے اندھیرا جیسے جادو ہو کوئی
کوئی پڑھ لیجے دعا لیکن اثر کچھ بھی نہیں
جسم پر ہے کون سے عفریت کا سایہ سوار
بھاگتا ہے سر سے دھڑ جیسے کہ سر کچھ بھی نہیں
ہر نیا رستہ نکلتا ہے جو منزل کے لیے
ہم سے کہتا ہے پرانی رہ گزر کچھ بھی نہیں
اہتمام زندگی سے ہیں یہ سب نقش و نگار
ورنہ گھر کچھ بھی نہیں دیوار و در کچھ بھی نہیں
گھر میں اپنے ساتھ جب رکھوگے عامرؔ دیکھنا
جس کو تم کہتے ہو اب رشک قمر کچھ بھی نہیں

غزل
اک خلا سا ہے جدھر دیکھو ادھر کچھ بھی نہیں
یعقوب عامر