EN हिंदी
اک خلا، ایک لا انتہا اور میں | شیح شیری
ek KHala, ek la-intiha aur main

غزل

اک خلا، ایک لا انتہا اور میں

افتخار مغل

;

اک خلا، ایک لا انتہا اور میں
کتنے تنہا ہیں میرا خدا اور میں

کتنے نزدیک اور کس قدر اجنبی!!
مجھ میں مجھ سا کوئی دوسرا اور میں

لوگ بھی سو گئے، روگ بھی سو گئے
جاگتے ہیں مرا رت جگا اور میں

رات اور رات میں گونجتی ایک بات
ایک خوف، اک منڈیر، اک دیا اور میں

شہر تاراج ہے، جبر کا راج ہے
پھر بھی ثابت ہیں میری انا اور میں

تیرے موسم، تری گفتگو اور تو
میری آنکھوں میں اک ان کہا، اور میں

اب تو اس جنگ کا فیصلہ ہو کوئی
لڑ رہے ہیں ازل سے ہوا اور میں

رنگ، خوشبو، شفق، چاندنی، شاعری
لکھ رہا تھا میں، اس نے کہا ''اور میں!''

اس کی بات اور ہے، ورنہ اے افتخارؔ
اس کو معلوم ہے، التجا اور میں