اک خالی چاند ہی لب جو رکھنا تھا
اس کے ہجر کا یہ بھی پہلو رکھنا تھا
سب کا دامن موتیوں سے بھرنے والے
میری آنکھ میں بھی اک آنسو رکھنا تھا
سورج کرنا تھا میری پیشانی کو
اس مٹی میں یہ بھی جادو رکھنا تھا
کس کی آنکھیں کہاں کی آنکھیں حرف ہوئیں
پتھر تھے تو خود پر قابو رکھنا تھا
کیا تھا اس کے نام کی لو کو روشن جب
دلوں میں عکس خرام آہو رکھنا تھا
جب حاصل لا حاصل دونوں ایک سے تھے
پھر خود کو نہ اسیر من و تو رکھنا تھا
یاد کا خنجر اتارنا تھا سینے میں
دیر تک اک منظر کو خوشبو رکھنا تھا
اک عالم سے بھر کر اس کی جھولی طورؔ
اپنی ہتھیلی پر برگ ہو رکھنا تھا

غزل
اک خالی چاند ہی لب جو رکھنا تھا
کرشن کمار طورؔ