اک جسم ہیں کہ سر سے جدا ہونے والے ہیں
ہم بھی زباں سے اپنی ادا ہونے والے ہیں
تعریف ہو رہی ہے ابھی تھوڑی دیر بعد
خوش ہونے والے سارے خفا ہونے والے ہیں
سنتے ہیں وہ انار کلی کھلنے والی ہے
کہئے کہ ہم بھی موج صبا ہونے والے ہیں
قربت میں اس کی اور ہی کچھ ہونے والے تھے
اس سے بچھڑ کے دیکھیے کیا ہونے والے ہیں
منتر کی طرح اس کو پڑھے جا رہے ہیں ہم
اک دن طلسم ہوش ربا ہونے والے ہیں

غزل
اک جسم ہیں کہ سر سے جدا ہونے والے ہیں
احمد صغیر صدیقی