EN हिंदी
اک جسم ہیں کہ سر سے جدا ہونے والے ہیں | شیح شیری
ek jism hain ki sar se juda hone wale hain

غزل

اک جسم ہیں کہ سر سے جدا ہونے والے ہیں

احمد صغیر صدیقی

;

اک جسم ہیں کہ سر سے جدا ہونے والے ہیں
ہم بھی زباں سے اپنی ادا ہونے والے ہیں

تعریف ہو رہی ہے ابھی تھوڑی دیر بعد
خوش ہونے والے سارے خفا ہونے والے ہیں

سنتے ہیں وہ انار کلی کھلنے والی ہے
کہئے کہ ہم بھی موج صبا ہونے والے ہیں

قربت میں اس کی اور ہی کچھ ہونے والے تھے
اس سے بچھڑ کے دیکھیے کیا ہونے والے ہیں

منتر کی طرح اس کو پڑھے جا رہے ہیں ہم
اک دن طلسم ہوش ربا ہونے والے ہیں