اک عشق ہے کہ جس کی گلی جا رہا ہوں میں
اور دل کی دھڑکنوں سے بھی گھبرا رہا ہوں میں
کر دے گا وہ معاف مرے ہر گناہ کو
یہ سوچ کر گناہ کئے جا رہا ہوں میں
چھوڑا کہیں کا مجھ کو نہ دنیا کے درد نے
پھر بھی ترا کرم کہ جئے جا رہا ہوں میں
راہ وفا میں مٹ گئے جب فاصلے سبھی
پھر کیوں نگاہ یار سے شرما رہا ہوں میں
پھر ہو رہی ہیں پیار کی سب حسرتیں جواں
پھر دل اسی کی یاد سے بہلا رہا ہوں میں
اک دن چکا ہی دوں گا زمانے کا بھی حساب
کچھ بات ہے جو ضبط کئے جا رہا ہوں میں
الفت کی راہ پر تجھے مل جائے گا خدا
اس بے قرار دل کو یہ سمجھا رہا ہوں میں
وہ شوخ اک نگاہ میں سب صاف کہہ گیا
مدت سے جس کو کہنے سے کترا رہا ہوں میں
عازمؔ یقیں نہیں اسے کیوں میری بات پر
کیا کم ہے یہ کہ اس کی قسم کھا رہا ہوں میں
غزل
اک عشق ہے کہ جس کی گلی جا رہا ہوں میں
عازم کوہلی