EN हिंदी
اک عشق ناتمام ہے رسوائیاں تمام | شیح شیری
ek ishq-e-na-tamam hai ruswaiyan tamam

غزل

اک عشق ناتمام ہے رسوائیاں تمام

ذاکر خان ذاکر

;

اک عشق ناتمام ہے رسوائیاں تمام
اگنے لگی ہیں جسم میں تنہائیاں تمام

کیا شہر آرزو تھا بسا اور اجڑ گیا
اب سر کشیدہ پھرتی ہیں پروائیاں تمام

سانسوں کے زیر و بم سے ہے ساغر میں اضطراب
جام و سبو سے پر اثر انگڑائیاں تمام

روز ازل سے سوچتے ذہنوں کی ہم سفر
صحرا کی دھوپ اور یہ پرچھائیاں تمام

حرف و صدا کی لے پہ جو اترا ترا خیال
بجنے لگی ہیں غزلوں میں شہنائیاں تمام

گرچہ پروئے شعر میں جذبات رنگ و نور
لیکن بیاں نہ ہو سکیں گہرائیاں تمام

اٹھتے رہے ہیں شان سے یاران مے کدہ
ہوتی رہی ہیں دہر سے رعنائیاں تمام

آمد کا سلسلہ نہیں شعر و سخن میں آج
پھیلی ہوئی ہیں قافیہ پیمائیاں تمام

ذاکرؔ نشست درد مقام خرد بھی ہے
منسوب اس خرد سے ہے بینائیاں تمام