اک عشق ناتمام ہے رسوائیاں تمام
اگنے لگی ہیں جسم میں تنہائیاں تمام
کیا شہر آرزو تھا بسا اور اجڑ گیا
اب سر کشیدہ پھرتی ہیں پروائیاں تمام
سانسوں کے زیر و بم سے ہے ساغر میں اضطراب
جام و سبو سے پر اثر انگڑائیاں تمام
روز ازل سے سوچتے ذہنوں کی ہم سفر
صحرا کی دھوپ اور یہ پرچھائیاں تمام
حرف و صدا کی لے پہ جو اترا ترا خیال
بجنے لگی ہیں غزلوں میں شہنائیاں تمام
گرچہ پروئے شعر میں جذبات رنگ و نور
لیکن بیاں نہ ہو سکیں گہرائیاں تمام
اٹھتے رہے ہیں شان سے یاران مے کدہ
ہوتی رہی ہیں دہر سے رعنائیاں تمام
آمد کا سلسلہ نہیں شعر و سخن میں آج
پھیلی ہوئی ہیں قافیہ پیمائیاں تمام
ذاکرؔ نشست درد مقام خرد بھی ہے
منسوب اس خرد سے ہے بینائیاں تمام
غزل
اک عشق ناتمام ہے رسوائیاں تمام
ذاکر خان ذاکر