اک عمارت نئی تعمیر ہوئی جاتی ہے
شہر کی اک نئی تفسیر ہوئی جاتی ہے
اے مرے عزم سفر کھینچ کہ لے جا مجھ کو
اک قسم پاؤں کی زنجیر ہوئی جاتی ہے
کھینچنے آئی ہے اب موت مرے دامن کو
آپ کے خواب کی تعبیر ہوئی جاتی ہے
حد تو یہ ہے کہ مری ذات کے اندر بھی اب
جا بجا آپ کی جاگیر ہوئی جاتی ہے
میں نے تو خواب سمندر کہ ہی پالے تھے مگر
یہ ندی کس لیے تعبیر ہوئی جاتی ہے
کیا غضب ہے کہ تیرے نام کی تہمت کب سے
بے سبب میرے بغل گیر ہوئی جاتی ہے
پھول کے جسم پہ تتلی کا لہو ہے فانیؔ
کیا مرے عہد کی تصویر ہوئی جاتی ہے
غزل
اک عمارت نئی تعمیر ہوئی جاتی ہے
فانی جودھپوری