اک اک قدم فریب تمنا سے بچ کے چل
دنیا کی آرزو ہے تو دنیا سے بچ کے چل
خود ڈھونڈ لے گا تجھ کو ترا منفرد مقام
راہ طلب میں نقش کف پا سے بچ کے چل
باقی ہے میرے دل میں ابھی عظمت وجود
قطرے سے کہہ رہا ہوں کہ دریا سے بچ کے چل
ملتی نہیں ہے راہ سکوں خوف و یاس میں
گلشن کی جستجو ہے تو صحرا سے بچ کے چل
منہ جادۂ وفا سے نہ موڑ اے وفا شعار
لیکن حدود چشم تماشا سے بچ کے چل
کتنی حسیں ہیں ان کے ستم کی مسرتیں
شکر کرم کی زحمت بے جا سے بچ کے چل
لمحے اداس اداس فضائیں گھٹی گھٹی
دنیا اگر یہی ہے تو دنیا سے بچ کے چل
اپنے ادب پہ ناز ہے تجھ کو اگر شکیلؔ
مغرب زدہ ادیب کی دنیا سے بچ کے چل
غزل
اک اک قدم فریب تمنا سے بچ کے چل
شکیل بدایونی