EN हिंदी
اک ہنر ہے جو کر گیا ہوں میں | شیح شیری
ek hunar hai jo kar gaya hun main

غزل

اک ہنر ہے جو کر گیا ہوں میں

جون ایلیا

;

اک ہنر ہے جو کر گیا ہوں میں
سب کے دل سے اتر گیا ہوں میں

کیسے اپنی ہنسی کو ضبط کروں
سن رہا ہوں کہ گھر گیا ہوں میں

کیا بتاؤں کہ مر نہیں پاتا
جیتے جی جب سے مر گیا ہوں میں

اب ہے بس اپنا سامنا در پیش
ہر کسی سے گزر گیا ہوں میں

وہی ناز و ادا وہی غمزے
سر بہ سر آپ پر گیا ہوں میں

عجب الزام ہوں زمانے کا
کہ یہاں سب کے سر گیا ہوں میں

کبھی خود تک پہنچ نہیں پایا
جب کہ واں عمر بھر گیا ہوں میں

تم سے جاناں ملا ہوں جس دن سے
بے طرح خود سے ڈر گیا ہوں میں

کوئے جاناں میں سوگ برپا ہے
کہ اچانک سدھر گیا ہوں میں