اک ہمیں سلسلۂ شوق سنبھالے ہوئے ہیں
وہ تو سب عہد وفا حشر پہ ٹالے ہوئے ہیں
ولولے دل کے سنبھلتے ہی نہیں سینے میں
جانے کس چاند کے یہ بحر اچھالے ہوئے ہیں
قریۂ خواب کہ جس نور نہایا ہوا ہے
ہم اسی سے یہ شب و روز اجالے ہوئے ہیں
وقت دنیا میں پھراتا ہے دنوں کو کیا کیا
دیکھ جو کوہ تھے وہ روئی کے گالے ہوئے ہیں
تو ملے یا نہ ملے جو ہو مقدر اپنا
کیا یہ کم ہے کہ ترے چاہنے والے ہوئے ہیں
گوندھ کر ڈھال کسی صورت یکتائی میں
جان و تن قلب و نظر تیرے حوالے ہوئے ہیں
غزل
اک ہمیں سلسلۂ شوق سنبھالے ہوئے ہیں
جلیل عالیؔ