اک ہم کہ ان کے واسطے محو فغاں رہے
اک وہ کہ دست شوق سے دامن کشاں رہے
دل میں یہی خلش رہے سوز نہاں رہے
لیکن مذاق عشق و محبت جواں رہے
اک وقت تھا کہ دل کو سکوں کی تلاش تھی
اور اب یہ آرزو ہے کہ درد نہاں رہے
اہل وفا پر آئیں ہزاروں مصیبتیں
یہ سب رہین گردش ہفت آسماں رہے
ان کا شباب ہر گل نورس سے پھٹ پڑا
چھپنے کے باوجود وہ ہر سو عیاں رہے
ہم نے ہزار طرح کیا ان کو مطمئن
ہر بات پر وہ ہم سے مگر بدگماں رہے
اللہ رے تلخ کامئ الفت کی انتہا
مجھ سے مرے عزیزؔ بھی دامن کشاں رہے
غزل
اک ہم کہ ان کے واسطے محو فغاں رہے
عزیز وارثی