اک ہاتھ دعاؤں کا اثر کاٹ رہا ہے
ہے چھاؤں میں جس کی وہ شجر کاٹ رہا ہے
کاٹا تھا کبھی میں نے سفر ایک انوکھا
اک عمر سے اب مجھ کو سفر کاٹ رہا ہے
تم ڈرتے ہو آ جائے نہ بستی میں درندہ
مجھ کو تو کوئی اور ہی ڈر کاٹ رہا ہے
پھیلا ہے بہت دور تلک مجھ میں بیاباں
ڈستا ہے دریچہ مجھے در کاٹ رہا ہے
اس شہر میں راس آتی نہیں آئنہ سازی
لیجے وہ مرا دست ہنر کاٹ رہا ہے
ہو جائے کہیں قد میں نہ کل اس کے برابر
اس خوف سے وہ بھائی کا سر کاٹ رہا ہے
ہر ایک سے آتی ہے بساند اپنی غرض کی
دل کس کے رویے کا ثمر کاٹ رہا ہے

غزل
اک ہاتھ دعاؤں کا اثر کاٹ رہا ہے
نرجس افروز زیدی