اک گزارش ہے بس اتنا کیجیے
جب کبھی فرصت ہو آیا کیجیے
لوگ اس کا بھی غلط مطلب نہ لیں
اجنبیت سے نہ دیکھا کیجیے
خود کو اپنی آنکھ سے دیکھا تو ہے
اب مری آنکھوں سے دیکھا کیجیے
التجا تھی ایک سادہ التجا
اپنی تنہائی میں سوچا کیجیے
یاد تو ہوگی وہ اپنی بے رخی
اب مری تصویر دیکھا کیجیے
مرہم زخم سخن بن جائیے
کچھ مرے فن کا مداوا کیجیے
عشق کو کب یاد تھی رسم وفا
حسن کا کس منہ سے شکوا کیجیے
ظلمت غم جب زیادہ ہو امامؔ
شمع فکر و فن جلایا کیجیے
غزل
اک گزارش ہے بس اتنا کیجیے
مظہر امام