EN हिंदी
اک گزارش ہے بس اتنا کیجیے | شیح شیری
ek guzarish hai bas itna kijiye

غزل

اک گزارش ہے بس اتنا کیجیے

مظہر امام

;

اک گزارش ہے بس اتنا کیجیے
جب کبھی فرصت ہو آیا کیجیے

لوگ اس کا بھی غلط مطلب نہ لیں
اجنبیت سے نہ دیکھا کیجیے

خود کو اپنی آنکھ سے دیکھا تو ہے
اب مری آنکھوں سے دیکھا کیجیے

التجا تھی ایک سادہ التجا
اپنی تنہائی میں سوچا کیجیے

یاد تو ہوگی وہ اپنی بے رخی
اب مری تصویر دیکھا کیجیے

مرہم زخم سخن بن جائیے
کچھ مرے فن کا مداوا کیجیے

عشق کو کب یاد تھی رسم وفا
حسن کا کس منہ سے شکوا کیجیے

ظلمت غم جب زیادہ ہو امامؔ
شمع فکر و فن جلایا کیجیے