EN हिंदी
اک گوشۂ دل میں جو کسی کے ہیں مکیں ہم | شیح شیری
ek gosha-e-dil mein jo kisi ke hain makin hum

غزل

اک گوشۂ دل میں جو کسی کے ہیں مکیں ہم

جتیندر موہن سنہا رہبر

;

اک گوشۂ دل میں جو کسی کے ہیں مکیں ہم
یہ زعم ہے گویا کہ ہیں والئ زمیں ہم

جاری ہے دلوں کا تو وہی ربط نہانی
ہر چند کہیں اور ہیں وہ اور کہیں ہم

کیا ہے یہ مکاں کیا یہ دیار اور یہ جہاں کیا
یہ اوج ہے اپنا کہ جہاں وہ ہیں وہیں ہم

یہ معجزۂ عشق ہے اک زندہ حقیقت
آتے ہیں نظر آج جہاں بھر میں ہمیں ہم

واں اپنی رسائی نہ سہی در تو ہے اس کا
ہوتے نہیں اغیار سے یوں چیں بہ جبیں ہم

ہر اک میں نظر آتی ہیں کچھ اس کی ادائیں
الفت نہ کسی اور سے کر بیٹھے کہیں ہم

جو چاہے کہے ایذا دے یا کچھ کرے تذلیل
در چھوڑ کے اس کا نہیں جا سکتے کہیں ہم

پروانۂ جنت ہمیں دلواتے ہیں کیوں آپ
کہہ تو دیا سو بار کہ جائیں گے نہیں ہم

نظارۂ عالم ہے بس اک خواب پریشاں
بیدار ہوئے گر نظر آئیں گے ہمیں ہم

دنیا میں ہے نیرنگیٔ تقدیر تماشا
تھے آبلہ پا کل تو ہیں اب تخت نشیں ہم

اف اک دل رہبرؔ پہ حسینوں کی یہ تکرار
للچائیں ہمیں ہم اسے پا جائیں ہمیں ہم