اک گردش مدام بھی تقدیر میں رہی
گرد سفر بھی پاؤں کی زنجیر میں رہی
خوابوں کے انتخاب میں کیا چوک ہو گئی
ہر بار اک شکستگی تعبیر میں رہی
رنگوں کا تال میل بہت خوب تھا مگر
پھر بھی کوئی کمی تری تصویر میں رہی
چارہ گروں سے درد کا درماں نہ ہو سکا
اللہ جانے کیا کمی تدبیر میں رہی
کچھ دیر تک تو زخم سے الجھی رہی دوا
کچھ دیر تک تو درد کی تاثیر میں رہی
قاتل نے سارے داغ تو پانی سے دھو دیئے
تازہ لہو کی بو جو تھی شمشیر میں رہی
شعلہ بیانی گو مرا طرز سخن نہیں
اک آنچ سی مگر مری تحریر میں رہی
غزل
اک گردش مدام بھی تقدیر میں رہی
بھارت بھوشن پنت