اک گلی سے خوشبو کی رسم و راہ کافی ہے
لاکھ جبر موسم ہو یہ پناہ کافی ہے
نیت زلیخا کی کھوج میں رہے دنیا
اپنی بے گناہی کو دل گواہ کافی ہے
عمر بھر کے سجدوں سے مل نہیں سکی جنت
خلد سے نکلنے کو اک گناہ کافی ہے
آسماں پہ جا بیٹھے یہ خبر نہیں تم کو
عرش کے ہلانے کو ایک گناہ کافی ہے
پیروی سے ممکن ہے کب رسائی منزل تک
نقش پا مٹانے کو گرد راہ کافی ہے
چار دن کی ہستی میں ہنس کے جی لیے عنبرؔ
بے نشاط دنیا سے یہ نباہ کافی ہے
غزل
اک گلی سے خوشبو کی رسم و راہ کافی ہے
عنبرین حسیب عنبر