EN हिंदी
اک فنا کے گھاٹ اترا ایک پاگل ہو گیا | شیح شیری
ek fana ke ghaT utra ek pagal ho gaya

غزل

اک فنا کے گھاٹ اترا ایک پاگل ہو گیا

آفتاب اقبال شمیم

;

اک فنا کے گھاٹ اترا ایک پاگل ہو گیا
یعنی منصوبہ زمانے کا مکمل ہو گیا

جسم کے برفاب میں آنکھیں چمکتی ہیں ابھی
کون کہتا ہے کہ اس کا حوصلہ شل ہو گیا

ذہن پر بے سمتیوں کی بارشیں اتنی ہوئیں
یہ علاقہ تو گھنے رستوں کا جنگل ہو گیا

اس کلید اسم نا معلوم سے کیسے کھلے
دل کا دروازہ کہ اندر سے مقفل ہو گیا

شعلہ زار گل سے گزرے تو سر آغاز ہی
اک شرر آنکھوں سے اترا خون میں حل ہو گیا

شہر آیندہ کا دریا ہے گرفت ریگ میں
بس کہ جو ہونا ہے اس کا فیصلہ کل ہو گیا

موسم‌ تاخیر گل آتا ہے کس کے نام پر
کون ہے جس کا لہو اس خاک میں حل ہو گیا

اس قدر خوابوں کو مسلا پائے آہن پوش نے
شوق کا آئین بالآخر معطل ہو گیا