اک ایک لفظ میں کئی پہلو کہاں سے آئے
جاناں ترے سخن میں یہ جادو کہاں سے آئے
جب تیرگی میں چاند ستارے بھی گم ہوئے
پلکوں کے شامیانے میں جگنو کہاں سے آئے
سلجھا رہا تھا پیچ و خم زندگی مگر
ہاتھوں میں یک بہ یک ترے گیسو کہاں سے آئے
شکوہ نہیں ہے تجھ سے کہ اس رہ گزار میں
سائے نہ ساتھ آئے تو پھر تو کہاں سے آئے
الجھن تمام عمر یہی تھی کہ زیست میں
آئے کہاں سے رنگ کہ خوشبو کہاں سے آئے
صحرا کی طرح خشک تھی پھر اس کے لمس سے
بے اختیار آنکھ میں آنسو کہاں سے آئے
غزل
اک ایک لفظ میں کئی پہلو کہاں سے آئے
سلیم فراز