اک دوجے کو دیر سے سمجھا دیر سے یاری کی
ہم دونوں نے ایک محبت باری باری کی
خود پر ہنسنے والوں میں ہم خود بھی شامل تھے
ہم نے بھی جی بھر کر اپنی دل آزاری کی
اک آنسو نے دھو ڈالی ہے دل کی ساری میل
ایک دیے نے کاٹ کے رکھ دی گہری تاریکی
دل نے خود اصرار کیا اک ممکنہ ہجرت پر
ہم نے اس مجبوری میں بھی خود مختاری کی
چودہ برس کے ہجر کو امشب رخصت کرنا ہے
سارا دن سو سو کر جاگنے کی تیاری کی
ہم بھی اسی دنیا کے باسی تھے سو ہم نے بھی
دنیا والوں سے تھوڑی سی دنیا داری کی
انجمؔ ہم عشاق میں اونچا درجہ رکھتے ہیں
بے شک عشق نے ایسی کوئی سند نہ جاری کی
غزل
اک دوجے کو دیر سے سمجھا دیر سے یاری کی
انجم سلیمی