EN हिंदी
اک دن خود کو اپنے اندر پھینکوں گا | شیح شیری
ek din KHud ko apne andar phenkunga

غزل

اک دن خود کو اپنے اندر پھینکوں گا

آصف انجم

;

اک دن خود کو اپنے اندر پھینکوں گا
میں شیشہ ہوں لیکن پتھر پھینکوں گا

تو پھینکے گی جھیل میں پھول کلائیوں کے
اور میں اپنی ذات کے کنکر پھینکوں گا

تیری خوشبو بسی ہوئی ہر سلوٹ میں
کھائی میں لے جا کر میں بستر پھینکوں گا

خواب میں تیرے پھول بدن کو نوچوں گا
اپنی چیخیں تیرے اندر پھینکوں گا

میں چھینوں گا صحرا قیس قبیلے سے
ریت کو پھر بادل کے منہ پر پھینکوں گا

میک اپ کپڑے البم اور کتابیں بھی
باندھ کے یادیں پار سمندر پھینکوں گا