اک درد سب کے درد کا مظہر لگا مجھے
دریا سمندروں کا شناور لگا مجھے
مجھ کو خلا کے پار سے آتی ہے اک صدا
اے رہرو خیال ذرا پر لگا مجھے
یہ اور بات میں نے کھنگالا انہیں بہت
ان پانیوں سے ڈر ہے برابر لگا مجھے
زخمی افق دھوئیں کی کمند اونگھتے درخت
منظر کی زد میں آ کے بڑا ڈر لگا مجھے
وہ دن کہاں کہ اس کو سر شام دیکھ لوں
پچھلے پہر کا چاند مقدر لگا مجھے
اس کی جبیں پہ دیکھا تو سجادؔ کیا کہوں
دھبہ بھی روشنی کا سمندر لگا مجھے

غزل
اک درد سب کے درد کا مظہر لگا مجھے
سجاد بابر