اک دامن میں پھول بھرے ہیں اک دامن میں آگ ہی آگ
یہ ہے اپنی اپنی قسمت یہ ہیں اپنے اپنے بھاگ
راہ کٹھن ہے دور ہے منزل وقت بچا ہے تھوڑا سا
اب تو سورج آ گیا سر پر سونے والے اب تو جاگ
پیری میں تو یہ سب باتیں زاہد اچھی لگتی ہیں
ذکر عبادت بھری جوانی میں جیسے بے وقت کا راگ
اوروں پر الزام تراشی فطرت ہے ہم لوگوں کی
سچ پوچھو تو پال رکھے ہیں ہم نے خود زہریلے ناگ
یہیں پڑے رہ جائیں گے سب مال خزانے دھن دولت
موت پڑی ہے تیرے پیچھے بھاگ سکے تو جتنا بھاگ
حرص و ہوا کی اس دنیا سے بچ کے رہو تو اچھا ہے
بہتر ہے شیراز کی دعوت سے بس روکھی روٹی ساگ

غزل
اک دامن میں پھول بھرے ہیں اک دامن میں آگ ہی آگ
شو رتن لال برق پونچھوی