اک بے وفا کو درد کا درماں بنا لیا
ہم نے تو آہ کفر کو ایماں بنا لیا
دل کی خلش پسندیاں ہیں کہ اللہ کی پناہ
تیر نظر کو جان رگ جاں بنا لیا
مجھ کو خبر نہیں مرے دل کو خبر نہیں
کس کی نظر نے بندۂ احساں بنا لیا
محسوس کر کے ہم نے محبت کا ہر الم
خواب سبک کو خواب پریشاں بنا لیا
دست جنوں کی عقدہ کشائی تو دیکھیے
دامن کو بے نیاز گریباں بنا لیا
تسکین دل کی ہم نے بھی پرواہ چھوڑ دی
ہر موج غم کو حاصل طوفاں بنا لیا
جب ان کا نام آ گیا ہم مضطرب ہوئے
آہوں کو اپنی زیست کا عنواں بنا لیا
ہم نے تو اپنے دل میں وہ غم ہو کہ ہو الم
جو کوئی آ گیا اسے مہماں بنا لیا
آئینہ دیکھنے کی ضرورت نہ تھی کوئی
اپنے کو خود ہی آپ نے حیراں بنا لیا
اک بے وفا پہ کر کے تصدق دل و جگر
بہزادؔ ہم نے خود کو پریشاں بنا لیا
غزل
اک بے وفا کو درد کا درماں بنا لیا
بہزاد لکھنوی