اک بے ثبات عکس بنا بے نشاں گیا
میں گنج بے بہا تھا مگر رائیگاں گیا
بھٹکا میں اپنی ذات کی وسعت میں سو بہ سو
میں اپنی جستجو میں کراں تا کراں گیا
تحریر اک اور تیر کے تحلیل ہو گئی
اک اور نقش لوح زمان و مکاں گیا
قائم ہوئے دلوں کے ابد موج رابطے
اک جنبش نظر میں غم دو جہاں گیا
کیا کیا چھپے نہ سبز رداؤں میں ریگزار
کیا کیا نہ لطف سختیٔ دشت تپاں گیا
جادو کا تھا دیار کوئی یا طلسم وہم
یہ دم زدن میں شہر کا منظر کہاں گیا
در کیا کھلے بشیرؔ خلائے بسیط کے
دل سے ہزار وسوسۂ آسماں گیا
غزل
اک بے ثبات عکس بنا بے نشاں گیا
بشیر احمد بشیر