EN हिंदी
اک بے قرار دل سے ملاقات کیجیے | شیح شیری
ek be-qarar dil se mulaqat kijiye

غزل

اک بے قرار دل سے ملاقات کیجیے

نوشاد علی

;

اک بے قرار دل سے ملاقات کیجیے
جب مل گئے ہیں آپ تو کچھ بات کیجیے

پہلے پہل ہوا ہے مری زندگی میں دن
زلفوں میں منہ چھپا کے نہ پھر رات کیجیے

نظروں سے گفتگو کی حدیں ختم ہو چکیں
جو دل میں ہے زباں سے وہی بات کیجیے

کل انتقام لے نہ مرا پیار آپ سے
اتنا ستم نہ آج مرے ساتھ کیجیے

بس ایک خامشی ہے ہر اک بات کا جواب
کتنے ہی زندگی سے سوالات کیجیے

نظریں ملا ملا کے نظر پھیر پھیر کے
مجروح اور دل کے نہ حالات کیجیے

دل کے سوا کسی کو نہیں جن کی کچھ خبر
دنیا سے کیا بیاں وہ حکایات کیجیے