اک بے نام سی کھوج ہے دل کو جس کے اثر میں رہتے ہیں
ہم کاغذ کی ناؤ بنا کر روز سفر میں رہتے ہیں
ہونے اور نہ ہونے کا اک برزخ ہے ہم جس میں ہیں
جس میں شام گھلی رہتی ہے ایسی سحر میں رہتے ہیں
اپنا تو اب اس دنیا سے کچھ ایسا ہی ناتا ہے
جیسے نیند میں چلنے والے خواب نگر میں رہتے ہیں
پستی اور بلندی کیا اب اپنے خواب ہیولے بھی
گرد کی صورت اڑتے ہیں اور راہ گزر میں رہتے ہیں
نیند نگر میں جا کر حور سے پہروں باتیں ہوتی ہیں
کیسے کیسے خواب مرے دیوار و در میں رہتے ہیں
ایک ہوا کے جھونکے ہی سے لرز گئے ہیں بام و در
شبنمؔ ایسے لگتا ہے ہم ریت کے گھر میں رہتے ہیں
غزل
اک بے نام سی کھوج ہے دل کو جس کے اثر میں رہتے ہیں
شبنم شکیل