EN हिंदी
اک بٹا دو کو کروں کیوں نہ رقم دو بٹا چار | شیح شیری
ik-baTa-do ko karun kyun na raqam do-baTa-chaar

غزل

اک بٹا دو کو کروں کیوں نہ رقم دو بٹا چار

وقار حلم سید نگلوی

;

اک بٹا دو کو کروں کیوں نہ رقم دو بٹا چار
اس غزل پر ہے قوافی کا کرم دو بٹا چار

شعلۂ گل سے چمن میں کہیں لگ جائے نہ آگ
اب تو شبنم بھی نظر آتی ہے نم دو بٹا چار

کون کہتا ہے کہ جنگل میں نہیں شیر کو غم
میں نے ضیغم میں ملا دیکھا ہے غم دو بٹا چار

اس کے سینے سے لگے بیٹھے ہیں زخموں کے سبب
دیکھو مرہم میں نظر آتے ہیں ہم دو بٹا چار

قاسم نار و جناں کی ہے محبت دل میں
ہو گیا حصہ جہنم کا تو نم دو بٹا چار

موسم گل کی قسم کھا نہ خدارا بلبل
دیکھ موسم میں ملا رہتا ہے سم دو بٹا چار

دل لئے پھرتا ہے تصویر بتاں کا البم
پھٹ نہ جائے یہ کہیں اس میں ہے بم دو بٹا چار

صورت بد رو ہلال آئی نظر ان کی جبیں
زلفیں لہرائیں ہیں کھا کھا کے جو خم دو بٹا چار

وعدے ہمدم کے رہیں کیوں نہ ادھورے اے وقارؔ
اس میں لو خود ہی نظر آتا ہے دم دو بٹا چار