اک برگ برگ دن کی خبر چاہئے مجھے
میں شاخ شب زدہ ہوں سحر چاہئے مجھے
میری طلب دہکتے الاؤ نہ تھے کبھی
انبار خس ہوں ایک شرر چاہئے مجھے
کب تک سلگتی ریت پہ بے حس پڑا رہوں
اس گل زمیں کی سمت سفر چاہئے مجھے
سو بار جسم و جاں کو بنانا پڑا سوال
اس تجربے سے اب تو حذر چاہئے مجھے
وہ ربط دوستی جسے پائندہ کہہ سکیں
ملتی نہیں یہ چیز مگر چاہئے مجھے
مضمون آگہی ہوں بیاں چاہتا ہوں میں
افسون بے اثر ہوں اثر چاہئے مجھے
غزل
اک برگ برگ دن کی خبر چاہئے مجھے
اسلم انصاری