اک بات پر بگڑے گئے نہ جو عمر بھر ملے
اس سے طریق صلح کے کیا صلح گر ملے
باہم سلوک تھا پہ ترے دور حسن میں
یہ رسم اٹھ گئی کہ بشر سے بشر ملے
دل محو چشم یار تھا بیمار ہو گیا
کچھ ان پرستشوں کا بھی آخر ثمر ملے
اے نالہ تو نے ساتھ دیا آہ کا تو کیا
امید کیا اثر کی جو دو بے اثر ملے
صدمہ جگر پہ پہنچے تو ہو دل میں کیوں نہ درد
کیا فرق کچھ جدا نہیں ہیں دل جگر ملے
ہم کو ہمارے طالع بد نے ڈبو دیا
اچھے تھے گر نصیب تو کیوں چشم تر ملے
دھوؤں صد آب تیغ سے اے پنبہ جو کبھو
دامن سے تیرے دامن داغ جگر ملے
امید بو میں اس کی ملے یوں صبا سے ہم
جس طرح بے خبر سے کوئی بے خبر ملے
جو کچھ نہ دیکھنا تھا سو وہ دیکھنا پڑا
اس بے وفا سے پہلے تھے کیا دیکھ کر ملے
دیکھے ہنر جو اپنے ہی وہ جانے اس کا کام
ہم کو تو عیب دیکھ کے اپنے ہنر ملے
مہر جہاں فروز دکھا دوں جبیں کو میں
گر سنگ آستانۂ خیر البشر ملے
ملنے سے اس کی گھٹتی ہے کیا تیری شان حسن
آزردہؔ خستہ جاں بھی ملے تو اگر ملے
غزل
اک بات پر بگڑے گئے نہ جو عمر بھر ملے
مفتی صدرالدین آزردہ