اک بار ہی جی بھر کے سزا کیوں نہیں دیتے
گر حرف غلط ہوں تو مٹا کیوں نہیں دیتے
ایسے ہی اگر مونس و غم خوار ہو میرے
یارو مجھے مرنے کی دعا کیوں نہیں دیتے
اب شدت غم سے مرا دم گھٹنے لگا ہے
تم ریشمی زلفوں کی ہوا کیوں نہیں دیتے
فردا کے دھندلکوں میں مجھے ڈھونڈنے والو
ماضی کے دریچوں سے صدا کیوں نہیں دیتے
موتی ہوں تو پھر سوزن مژگاں سے پرو لو
آنسو ہو تو دامن پہ گرا کیوں نہیں دیتے
سایہ ہوں تو پھر ساتھ نہ رکھنے کا سبب کیا
پتھر ہوں تو رستہ سے ہٹا کیوں نہیں دیتے
غزل
اک بار ہی جی بھر کے سزا کیوں نہیں دیتے
مرتضیٰ برلاس