اک اشک سر شوخیٔ رخسار میں گم ہے
آئینہ بھی اس حسن کے اسرار میں گم ہے
کوئی تو زمیں زر کا پجاری ہے مرے دوست
اور کوئی یہاں اپنے ہی گھر بار میں گم ہے
اپنوں کے رویوں نے جسے توڑ دیا تھا
وہ شخص کسی محفل اغیار میں گم ہے
پایا تو سکھا دے گا مجھے شعلہ بیانی
وہ حرف جو اس سینۂ کہسار میں غم ہے
کہتا ہے ترے سر کی سفیدی میں چھپا دکھ
اک شہر بتاں وقت کی دیوار میں گم ہے
کچھ درد نمایاں ہے کہانی میں امینؔ اور
کچھ درد ابھی دست قلمکار میں گم ہے
غزل
اک اشک سر شوخیٔ رخسار میں گم ہے
امین اڈیرائی